ہے موم وہ پتھر تو پگھل کیوں نہیں جاتا
پیکر میں کسی پھول کے ڑھل کیوں نہیں جاتا
دل ہے کوئی بھیگا ہوا کاغذ تو نہیں ہے
مٹھی میں ہے شعلے کی تو جل کیوں نہیں جاتا
سچ بولنا، سچ ہے کوئی سودا تو نہیں ہے
پھر تیغ تلے بھی یہ خلل کیوں نہیں جاتا
صدیوں سے وہ منظر مری آنکھوں میں بسا ہے
موسم کے بدلتے ہی، بدل کیوں نہیں جاتا
ہر بار تجھے دیکھ کے سوچا ہے یہ دل نے
جب جل گئی رسّیہ تو یہ بل کیوں نہیں جاتا
ہوتا ہے جدا شاخ سے، آتا ہے زمیں پر
کچھ تو ہے سبب، عرش پہ پھل کیوں نہیں جاتا
یہ طارِِّ جاں کس کا گرفتار ہے جانے
وا ہے درِ زنداں تو نکل کیوں نہیں جاتا
کس بازو بریدہ کا فرّس رن میں گھرا ہے
گر گر کے جو اٹھتا ہے سنبھل کیوں نہیں جاتا
شبنم تمہیں سورج سے سرو کار نہیں جب
پھر دھوپ میں جلنے کا عمل کیوں نہیں جاتا